शिकस्त-ओ फतहो
جمیل مظہری شاعر تو تھے ہی, اور اگر کوئی اس فریب پیہم میں مبتلا نہ ہو تو دم نکل جائے آدمی کا کہ اب سے سو سال پہلے اردو کے ایک بڑے , متقدر شاعر جمیل مظہری نے اس زمانے میں جب پریم چند کا چراغ جلتا تھا , आउर ب بڑے ناولوں مد مد ام نہ تھی، نہ میل مظہری نام نے اردو میں ایک نا ناولوں مل بڑی مضبوطی دسا ما ایک بار تو ناول ا نام "فرض کی ربان اہ ر" ر رکھا، اور دوسری بار "شکست और فتح"۔ دا بخش نے مل مظہری ا ناول ائع ا تو اس دونوں نوان برقرار ر ر ائع ا
لسفی تو تھے وہ، (بعضوں ال میں اچھے اصے)۔ م ایک لسان نم تو ماں میم نام سے بھی ائع وئی تھی، تہ نہیں ا وا، رض نے وہ لسفی اعر تھے۔ لسفیان اعری بھی مگر شاعری سے قطع نظر بات ان کے ناول کی ہے , جو جذبہ محبت کا وہ فلسفیانہ ٹریٹمنٹ جو اس ناول میں نظر آتا ہے , اور جس سے اس جذبے میں لپٹے ہوئے سارے اسرار و رموز قاری پر آہستہ آہستہ کھلتے جاتے ہیں , اس دلآویزی کے ساتھ اس وبصورت تجزیہ ساتھ اور اس تفصیل سے سی اور ناول میں نہیں ملتا۔ مزے بات دلچسپی سی میل احب نے م نہیں ونے دی یاد آیا کہ وہ کشمکش جو اس ناول کی شاہ کلید ہے , جمیل مظہری کے چالیس سال بعد ایک بار اردو ناول کو اور نصیب ہوگئی جب "بہت دیر کردی" نام کا ناول شائع ہوا, شاید اس ناول پر ایک فلم بھی بننا شروع ہوگئی تھی (پھر ا وا تہ نہیں)۔ لیکن جمیل مظہری کا چالیس سال پہلے کا تجربہ بہر صورت اولیت کا سہرا تو اسی پر بنتا ہے , ناول تو ہم کہتے رہے ہیں, لیکن حقیقت میں اسے ناولٹ کہنا چاہیے کہ اس کا کینواس ناول بننے کے لئے وسیع تر ہونا تھا । و وں وتا مانہ تو اتنا رنا تھا۔